سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس اطہر من اللہ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کے بارے میں اضافی نوٹ میں کہا کہ عدالت کو مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کے ساتھ انتخابی دھاندلی کی درخواست بھی سننی چاہیے۔
چار صفحات پر مشتمل تفصیلی نوٹ میں سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے کیس کی نگرانی کرنے والے جسٹس اطہر من اللہ نے اہم مسائل کی نشاندہی کی۔ انہوں نے کہا کہ ایک بڑی سیاسی جماعت کو عدالت کے فیصلے کی غلط وضاحت کی وجہ سے انتخابی عمل سے نااہل قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ الیکشن کمیشن منصفانہ مقابلے کو یقینی بنانے سے متعلق شکایات کا ریکارڈ فراہم کرے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے دلائل کے دوران اٹھائے گئے اہم نکات پر بھی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ یہ تسلیم کیا گیا کہ ایک بڑی جماعت کو سپریم کورٹ کے سابقہ فیصلے کی غلط فہمی کی بنیاد پر نااہل قرار دیا گیا تھا، جس کا مقصد کسی بھی پارٹی کو نااہل قرار دینا نہیں تھا۔
دلائل نے سنگین سوالات اٹھائے کہ عام انتخابات کتنے منصفانہ تھے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے الیکشن کمیشن پر تنقید کی کہ اس غلط فہمی کی وجہ سے ایک بڑی سیاسی جماعت کے امیدواروں کے ساتھ آزاد امیدواروں جیسا سلوک کیا گیا، حالانکہ امیدواروں نے اپنی پارٹی سے وابستگی ظاہر کی تھی۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ الیکشن کمیشن کے ان اقدامات سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے کہ انتخابی عمل کتنا منصفانہ تھا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے روشنی ڈالی کہ عدالت کے فیصلے کی غلط تشریح کی وجہ سے بعض امیدوار اور ووٹرز حصہ لینے کے حق سے محروم ہوگئے۔ اس سے سیاسی جماعت پی ٹی آئی کی شمولیت اور مخصوص نشستوں کے حوالے سے کیس کی سمجھ بوجھ براہ راست متاثر ہوئی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے زور دے کر کہا کہ ووٹرز کو اپنی منتخب پارٹی کی حمایت سے روکنا قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کو منصفانہ اور صحیح کام کرنے پر توجہ دینی چاہیے، خاص طور پر ایسے اہم معاملات میں جو کہ منصفانہ انتخابات پر اثر انداز ہوں۔
آخر میں جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن سے متعلق عدالتی استفسار کو نہ دیکھا جائے کیونکہ عدالت کا خیال ہے کہ کمیشن نے منصفانہ انتخابات کرانے میں اچھا کام نہیں کیا۔ انہوں نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ وہ انتخابات سے پہلے اور بعد کی شکایات کا ریکارڈ دکھائے۔ انہوں نے کہا کہ مخصوص نشستوں کے معاملے کو باقی سب کچھ سوچے بغیر نہیں دیکھا جا سکتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے یہ کہہ کر بات ختم کی کہ متاثر ہونے والے حقیقی لوگ یعنی ووٹرز فی الحال عدالت میں نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے عوام کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔