پاکستان میں اس وقت پیناڈول کی قلت کی وجہ سے لاکھوں لوگ پریشان ہیں ۔
پاکستان میں اس وقت بخار کی دوا پینا ڈول کی قلت کی شکایات عام ہیں اور ملک میں یہ دوا یا تو دستیاب نہیں ہے یا پھر مہنگے داموں فروخت ہو رہی ہے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان میں بخار کے لیے پیناڈول مفید گولی سمجھی جاتی ہے۔
مگر کیا وجہ ہے کہ میڈیکل اسٹورز میں عام بکنے والی پیناڈول میڈیسن نایاب کیوں ہوگئی ہے ؟
برسات کا موسم آتے ہی ملک بھر میں ڈینگی کے کیسیسز میں اضافہ ہوا ہے ۔
ڈینگی کی وجہ سے ہونے والے بخار میں پیناڈول کو سب سے بنیادی دوائی سمجھا جاتا ہے ۔
’گذشتہ سال بھی ڈینگی کے کیسز بڑھنے سے اس کی قلت ہو گئی تھی تاہم اس سال سیلاب کے بعد ڈینگی بخار کے کیسز میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے پیناڈول کی طلب میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔‘
یہی وجہ ہے کہ پینا ڈول کی طلب میں اضافہ ہوا جس کے بعد اس کی قلت اور مہنگے داموں اس کی فروخت کی شکایات ابھریں جس سے اس دوا کی بلیک مارکیٹنگ اور ذخیرہ اندوزی شروع ہوگئی ۔
یہاں یہ کہنا بلکل غلط ہوگا کہ پیناڈول کی قلت ہے ، پیناڈول موجود ضرور ہے لیکن اس کی مصنوعی قلت ظاہر کرکے زائد قیمت میں فروخت کی جارہی یے
کچھ ہفتے پہلے پیناڈول کی 100 گولیوں کا ایک پیکٹ 350 روپے میں ملتا تھا، پھر اس کی قیمت 500 روپے ہوئی جو بڑھ کر 700 روپے ہو گی اور اب یہ 1000 روپے میں میسر ہے۔
کیا پیناڈول ہی بخار کے لیے کارآمد ہے ؟
پیناڈول ایک برانڈ کا نام ہے جبکہ اس کے علاوہ کئی کمپنیاں بخار کی دوا بناتی ہیں۔
یہاں عام آدمی کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی زبان پر پینا ڈول کا نام چڑھا ہوا ہے۔ ورنہ اگر پیناڈول نہ ہو تو بخار کے علاج کی دوسری دوائیں بھی موجود ہیں۔
پیناڈول کی قلت کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جارہی ہے کہ سالٹ مہنگا ہونے کی وجہ سے کمپنی نے پیناڈول کی پیداوار میں کمی کردی ہے ۔
کمپنی کے مطابق جو سالٹ 600 روپے فی کلو پر ملتا تھا اب وہ 2400 روپے فی کلو پر ملتا ہے۔
’ملک میں سالانہ بنیادوں پر 45 کروڑ گولیوں کی پیداوار کی جاتی ہے، جو کمپنی یہ دوا بنا رہی تھی اس کی جانب سے قیمت بڑھانے کی درخواست کے باوجود حکومت نے قیمت نہیں بڑھائی جس سے کمپنی کو نقصان ہوتا رہا ہے اور انھوں نے اس کی پیداوار بہت کم کر دی ہے۔‘
سندھ حکومت کے محکمہ صحت کی جانب سے ایک گودام پر چھاپے کے دوران پینا ڈول کی ساڑھے چار کروڑ گولیوں کی برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
صوبائی محکمہ صحت کی جانب سے کہا گیا کہ برآمد شدہ پینا ڈول کی گولیوں کو ذخیرہ کر کے مہنگے داموں بیچا جانا تھا اور ان کی قیمت 25 کروڑ روپے سے زائد ہے۔
پاکستان میں ملٹی نیشنل فارما سوٹیکل کمپنیوں نے ذخیرہ اندوزی کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو سٹاک برآمد کی گیا ہے صرف دو دن کی پیداوار کا سٹاک ہے جسے کمپنی نے اپنے گودام سے پورے ملک میں سپلائی کرنا تھا۔ انھوں نے کہا جی ایس کے کمپنی پاکستان میں پینا ڈول تیار کرتی ہے اور سالانہ بنیادوں پر اس کی پیداوار 45 ارب گولیاں ہیں اور جس سٹاک کو برآمد کر کے اسے ذخیرہ اندوز کیے جانے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے وہ کچھ بھی نہیں ہے۔
ملک میں ڈینگی بخار کے بڑھتے ہوئے کیسوں کے بعد پینا ڈول گولی کی طلب میں بھی اضافہ ہو گیا ہے تاہم اس گولی کی قلت اور دستیاب گولی کی مہنگے داموں فروخت کی وجہ سے مریض پریشانی کا شکار ہیں۔