نور محل بہاولپور کی سرزمین پر واقع ہے جسے دیکھ کر روح پر ایک سحر طاری ہوجاتا ہے۔
محبت کا پیام اور کاریگری کا منہ بولتا شاہکار اپنے اندر تہذیب کی رعنائی رکھے ہوئے ہے ۔
بہاولپور کی سرزمین ہاکرہ تہذیب کا حصہ تھی جو کہ دنیا کی قدیم ترین میں سے ایک ہے ۔
ہاکرہ تہذیب “موہنجودڑو اور ہڑپہ” کی مادری تہذیب تھی۔
یہ تہذیبیں سمندری اور زمینی راستوں سے اچھی طرح جڑی ہوئی تھیں۔
بہاولپور کی تاریخ کے بنا شاید ہی تہذیب و تمدن کو صحیح سے بیان کیا جاسکے ۔
بہاولپور کے علاقے میں مختلف خاندانوں کے حملے کی ایک پوری تاریخ ہے۔
تاریخی لحاظ سے یہ علاقہ 320 قبل مسیح میں سکندر کے لیے ایک قیمتی ملکیت تھا۔
نور محل کی تعمیر کے حوالے سے مختلف کہانیاں زبان زدعام ہے ۔
اکژ تاریخ دانوں کا یہ ماننا ہے کہ نواد سر صادق عباسی نے نور محل اپنے لیے بنایا تھا۔
نور محل بہاولپور کے چھپے ہوئے لعل یمن میں سے ایک ہے ۔
تشہیر کی کمی کی وجہ سے نور محل ابھی تک وہ پذیرائی نہیں لے سکا جو اسے ملنی چاہیے ۔
یہ فی الحال پاک فوج کے زیرانتظام ہے اور ریاستی مہمان خانے کے طور پر استعمال میں آتا ہے ۔
نورمحل میں داخل ہوتے ہی آپ ماضی کے جھروکوں میں کھو جائیں گے ۔
تاریخی تصاویرشاہی نور محل دیکھنے والے ناظرین اور سیاحوں کے لیے رکھی گئی ہیں۔
نور محل کے اندر داخل ہوتے ہی آپ بہاولپور خطے کے متعدد نقشے دیکھ سکتے ہیں ۔
بہاولپور میں واقع ، یہ محل انتہائی خوبصورت ، رنگین اور کاریگری کا زندہ ثبوت ہے۔
چھتوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر فانوس ، جمالیاتی طور پر ماربل ، ٹائلڈ فرش اور کشادہ ہال ہے۔
یہ فن تعمیر کا ایک شاندار کام ہے جو تاریخ سے محبت کرنے والوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ۔
نورمحل اسلامی طرز کا فن تعمیرہے جسے 1872 میں ریاستی انجینئر انگریز ہینن نے ڈیزائن کیا تھا۔
تین سال کی انتھک محنت کے بعد 1875 میں نور محل مکمل ہوا ۔
نور محل 44،600 مربع فٹ کے رقبے پر محیط ہے۔
اس میں 32 کمرے ہیں جن میں 14 تہہ خانے ، 6 برآمدہ اور 5 گنبد ہیں۔
اس کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا چلاگیا ۔
نواب محمد بہاول خان پنجم نے 1906 میں 20،000 روپے کے اخراجات کے ساتھ ایک مسجد تعمیر کروائی ۔
عمارت کی قیمت 12 لاکھ روپے تھی اور زیادہ تر اشیاء انگلینڈ اور اٹلی سے درآمد کی گئی تھیں۔
یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ نور محل کی تعمیر میں کوئی لوہا اور سیمنٹ استعمال نہیں کیا گیا۔
نور محل کی مکمل عمارت مٹی سے بنی ہے جو دالوں میں چاول ملا کر بنائی گئی تھی۔
نور محل کی تعمیر کے وقت نیک شگون کے طور پر اس کی بنیاد میں ریاست کا نقشہ اور سکے دفن کیے گئے۔
نور محل کے ساتھ بہت سی کہانیاں منسوب ہیں ۔
کہا جاتا ہے کہ یہ محل نواب صادق خان چہارم نے اپنی بیوی نور کے لیے بنایا تھا۔
تاہم وہ صرف ایک رات نور محل میں رہی اور کبھی واپس نہیں آئی۔
جب ریاست بہاولپور کو1956میں پاکستان میں ضم کیا گیا تو اس عمارت کو محکمہ اوقاف کے حوالے کردیا گیا ۔
نور محل کو 1971 میں فوج کو لیز پر دیے دیا گیا تھا۔
پھر فوج نے 1997 میں نور محل کو 119 ملین میں خرید لیا ۔
اس عمارت کو ستمبر 2001 میں حکومت پاکستان کے محکمہ آثار قدیمہ نے “محفوظ یادگار” قرار دیا تھا۔
نورمحل طلباء کے دوروں اور دیگر دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے کھلا رہتا ہے ۔
1.2K
Short URL: https://tinyurl.com/28z5dfob
previous post