اس وقت پاکستان میں ایک جملہ اکثر سننے کو مل رہا ہے کہ اگر یوں نہ کیا تو ملک دیوالیہ ہوجائے گا ۔
اگر پاکستان دیوالیہ ہوگیا تو یوں ہوجائے گا ۔
پاکستان کا حال بھی سری لنکا جیسا ہوجائے گا ۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی بھی ملک دیوالیہ کیسے ہوتا ہے ؟
اگر کوئی ملک دیوالیہ ہوجائے تو کیا ہوتا ہے ؟
کیا پاکستان سچ میں دیوالیہ ہوسکتا ہے ؟
یہ وہ سوال ہیں جو ہر دوسرے پاکستانی کے ذہن میں گردش کررہے ہیں ۔
گزشتہ دنوں پوری دنیا نے سری لنکا کو ڈیفالٹ ہوتے دیکھا ۔
سری لنکا تاریخ میں پہلی بار دیوالیہ ہوا ۔
سری لنکا نے اپنی تاریخ میں پہلی بار قرض ادا نہیں کیا ۔
کوئی بھی ملک اس وقت ڈیفالٹ ہوتا جب حکومتیں قرض دہندگان کو اپنے کچھ یا تمام قرضوں کی
ادائیگیوں کو پورا کرنے سے قاصر ہوتی ہیں۔
سادہ الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک ملک جب اپنے بیرونی قرضے کی قسطیں اور اس
پر سود کی ادائیگی سے قاصر ہو تو اس ملک کو دیوالیہ قرار دیے دیا جاتا ہے۔
کسی ملک کے لیے داخلی قرضے بھی ایک مسئلہ ہوتے ہیں تاہم اس کی بنیاد پر ملک کو بین الاقوامی سطح پر دیوالیہ نہیں قرار دیا جا سکتا۔
اندرونی قرضے کی ادائیگی کے لیے مقامی کرنسی چھاپ کر ان کی ادائیگی تو ہو سکتی ہے ۔
لیکن بیرونی قرضے کی ادائیگی کے لیے عالمی کرنسی کی ضرورت ہوتی ہے جیسے کہ اس وقت ڈالر کو عالمی کرنسی کا درجہ حاصل ہے۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ کوئی بھی ملک جب قرضہ حاصل کرتا ہے تو اس کی واپسی یکمشت نہیں کی جاتی ہے بلکہ قسطوں کی صورت میں کی جاتی ہے اور ہر قسط کے ساتھ سود بھی ادا کیا جاتا ہے۔
کوئی بھی ملک قرضے کی واپسی کے لیے عالمی مالیاتی اداروں اور دوسرے ممالک کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے کہ قرضہ اور اس پر سود کی ادائیگی ایک خاص وقت اور مدت میں کی جائے گی تاہم جب کوئی ملک اس سلسلے میں قرضے کی قسط اور اس پر سود کی ادائیگی میں ناکام ہو جائے تو ملک دیوالیہ ہو جاتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے سے اس ملک پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ؟
ایک ملک کے دیوالیہ ہونے سے پہلے جو علامات ظاہر ہوتی ہیں ان میں سب سے بڑی علامت کسی ملک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر اور ان کے مقابلے میں بیرونی قرضوں کی کتنی قسطیں اور ان پر سود کی کتنی ادائیگی ہونی ہے۔
سادہ الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ملک میں موجود وسائل قرضوں کی ادائیگی کے لیے ناکافی ہوجاتے ہیں ۔
جوں جوں ملک پر قرضے کا بوجھ بڑھتا ہے ملکی وسائل بھی کم ہونا شروع ہوجاتے ہیں ۔
ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب چیزیں خریدنے پر ڈالر ذیادہ خرچ ہوں اور آپ کی اپنی پراڈکٹ کم سیل ہوں تو ملکی وسائل میں تیزی کے ساتھ کم ہوتی ہے ۔
دیوالیہ ہونے کی صورت میں عالمی منڈی میں ملک کی قدر بہت گر جاتی ہے اور عالمی اداروں اور دوسرے ممالک کی جانب سے مزید قرضے نہیں ملتے ۔
دیوالیہ ہونے کی صورت میں سب سے پہلا ردعمل یہ ہوتا ہے کہ ملک سے جانے والا تجارتی مال ضبط کر لیا جاتا ہے اور آپ کے ملک کے ہوائی جہاز اور بحری جہاز کسی دوسرے ملک کے قبضے میں دیے دیے جاتے ہیں ۔
ملک میں وسائل کی کمی ہوجاتی ہے اور لوگ بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے خانہ جنگی شروع کردیتے ہیں ۔
لوٹ مار کا بازار سرگرم ہوجاتا ہے ۔
پیٹرول کی کمی کی وجہ سے بجلی کے پلانٹ بند ہوجاتے ہیں ۔
انڈسٹری بند ہوجاتی ہے ، کھانے پینے کی اشیاء کی قلت ہوجاتی ہے ۔
دیوالیہ ہونے کی صورت میں کرنسی کی قدر روازنہ کی بنیادوں پر بہت تیزی سے گرنا شروع ہو جاتی ہے جیسا کہ وینزویلا میں ہوا کہ جب وہ دیوالیہ ہوا تو اس کی کرنسی اس قدر بے وقعت ہو گئی تھی کہ سڑکوں پر بکھری رہتی تھی اور لوگ اس پر چلا کرتے تھے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا پاکستان بھی دیوالیہ ہونے جارہا ہے ؟
پاکستان کی خراب معاشی صورتحال سے اس کے دیوالیہ ہونے کے امکان ضرور ہیں لیکن خطرات اتنے ذیادہ نہیں ہیں جتنے سمجھے جارہے ہیں ۔
’اگر کوئی بہت زیادہ مشکل صورتحال سامنے آتی ہے تو پاکستان کے دوست ممالک اس کی مدد کر سکتے ہیں۔
پاکستان کی کریڈٹ کی صورتحال ایسی ہے کہ اسے مزید قرضہ مل سکتا ہے۔
پوری دنیا میں ملک خسارے میں چلتے ہیں۔ لیکن کوئی ملک زیادہ دیر خسارے میں چلے تو دیوالیہ ہو جاتا ہے ۔
پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال بہت مشکل دور سے گزر رہی ہے اگر بروقت اقدامات نہیں کیے گئے تو ملک کو دیوالیہ جیسے طوفان کے خطرے کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔