انگلینڈ کے ہسپتالوں میں فائزر کی ویکسین کی پہلی خوراک لوگوں کو لگائی جا رہی ہے جبکہ ایف ڈی اے نے امریکہ میں بھی اس کے استعمال کی منظوری دے دی ہے۔ ایسے میں عوام میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ آیا یہ ویکسین ان کے جسم کے لئے محفوظ بھی ہے یا نہیں۔ معروف صحافتی ادارے بی بی سی نے اس پر تفصیلی مضمون شائع کیا ہے۔
ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ یہ ویکسین ہمارے لیے محفوظ ہے؟
لیبارٹری میں سب سے پہلے حفاظتی ٹرائل شروع ہوتے ہیں جن میں انسانوں پر اسے آزمانے سے پہلے سیلز اور جانوروں پر آزمایاجاتا ہے اور پھر اس کی تحقیقات ہوتی ہیں۔ اصول یہ ہوتا ہے کہ بالکل تھوڑے سے شروع کیا جاتا ہے اور اگر کوئی حفاظتی مسئلہ سامنے نہ آئے تو پھر ٹیسٹنگ کے اگلے مرحلے پر جایا جاتا ہے۔
ٹرائل کا کردار
جیسے جیسے لیبارٹری سے حفاظتی ڈیٹا مثبت آتا ہے سائنسدانوں کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ ویکسین کام کر رہی ہے اور علاج بھی موثر ہو رہا ہے۔
فائزر نے اس ضمن میں 40 ہزار رضا کاروں کے ٹیسٹ کیے۔ بعد میں تمام معلومات کو علیحدہ علیحدہ جانچا گیا۔ کوویڈ ویکسین کے ٹرائل بہت ہی تیز رفتاری سے کیے گئے تاہم کسی بھی مرحلے کو ادھورا نہیں چھوڑا گیا۔
ویکسین کی منظوری کون دیتا ہے؟
اگر ہم انگلینڈ کی بات کریں تو وہاں منظوری صرف وہاں کی ریگولیٹری اتھارٹی ہی دے سکتی ہے اگر ایم ایچ آر اے نے اسے پاس کر دیا تو سمجھو یہ محفوظ بھی ہو گی اور موثر بھی۔
کیا یہ ویکسین آپ کو بیمار کر سکتی ہے؟
اس بات کے شواہد نہیں ملے کہ اگر ان اجزاء کا اتنی کم مقدار میں استعمال کیا جائے تو وہ انسانی جسم کے لیے کسی بھی طرح نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔ کوئی بھی ویکسین آپکو بیمار نہیں کرتی بلکہ آپ کے مدافعتی نظام کو ایک خاص انفیکشن کو پہچاننا اور اس سے لڑنا سکھاتی ہیں۔ کچھ لوگوں میں ویکسین لینے کے بعد پٹھوں کے کچھاو یا ٹمپریچر کے بڑھ جانے جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں جو دراصل کوئی بیماری نہیں ہوتی بلکہ ویکسین لگنے پر ہمارے جسم کا ردعمل ہوتا ہے۔
کیا اس ویکسین سے الرجی ہو سکتی ہے؟
کسی بھی ویکسین سے شاذونادر ہی الرجی ہوتی ہے تاہم ایم ایچ آر اے کے مطابق فائزراور بائیواین ٹیک کی ویکسین کے ٹرائل کے دوران کسی بھی قسم کے مضر اثرات سامنے نہیں آئے۔ تاہم جو لوگ کثرت سے الرجی کا شکار رہتے ہیں انہیں فی الحال اس ویکسین کا استعمال نہیں کرنا چاہیے.