پاکستان کے ضلع جہلم میں دینہ کے قریب قدیم تاریخی قلعہ روہتاس دہلی کے افغان حکمران شیر شاہ سوری نے سولہویں صدی عیسوی میں تعمیر کرایا تھا۔ آج اس قلعے کی باقیات عالمی ثقافتی میراث کا حصہ تو ہیں مگر اس کے باوجود یہ قلعہ سخت بدحالی کا شکار ہے۔
روہتاس کے اس تاریخی قلعے کی بنیاد افغان بادشاہ فرید خان نے، جو بعد میں شیر شاہ سوری کے نام سے مشہور ہوا، تقریباً پونے پانچ سو سال قبل مئی 1542عیسوی میں رکھی تھی۔ پتھر اور چونے سے بنایا گیا یہ قلعہ تقریبآ پانچ سال کی مدت میں تعمیر ہوا تھا۔ اس کے بعد قلعے میں شیر شاہ سوری کے بیٹے سلیم شاہ کے دور میں توسیع بھی کی گئی۔
شیر شاہ سوری نے یہ قلعہ گکھڑوں کے حملوں سے بچنے کے لیے فوجی حکمت عملی کے طور پر تعمیر کروایا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس قلعے کی تعمیر میں تین لاکھ سے زائد فوجیوں اور مزدوروں نے حصہ لیا تھا۔ قلعہ بارہ دروازوں پر مشتمل تھا اور مجموعی طور پر اس کی تعمیر پر سولہ کروڑ بہلولوی سکے لاگت آئی تھی۔
شیر شاہ سوری نے یہ قلعہ سالوں پہلے بھارت میں تعمیر کردہ اسی طرح کے ایک دوسرے قلعے کی طرز پر بنوایا تھا۔ سنسکرت میں رہتس کا مطلب ہے، سفید انڈہ۔ اونچائی سے دیکھنے پر یہ قلعہ ایک چمکتے ہوئے سفید انڈے کی طرح دکھائی دیتا تھا۔ یہیں سے اس کا نام رہتس سے بدل کر روہتاس پڑ گیا۔
روہتاس قلعے کا ایک حصہ غیر معمولی حد تک اچھی حالت میں ہے۔ کافی اونچی بیرونی دیوار پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر قائم محرابی شکل کی وہ کِنگریاں دیکھی جا سکتی ہیں، جن کی تعداد شروع میں سات ہزار کے قریب تھی۔ محاصرے یا حملے کی صورت میں یہاں ماہر تیر انداز تعینات کیے جاتے تھے۔
روہتاس قلعے کی فصیل سے تھوڑا دور اور ایک تالاب کے قریب ایک عید گاہ آج بھی موجود ہے۔ یہاں ایک وقت میں پانچ سو تک نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ بظاہر یہ عید گاہ قلعے جتنی قدیم تو نہیں لگتی لیکن اس کے بہت اچھی حالت میں ہونے کی ایک وجہ اس کا عیدین کے موقع پر ابھی تک مقامی آبادی کے زیر استعمال ہونا بھی ہے۔