ایشیا ء کپ ۲۰۲۲ کا فائنل پاکستان اور سری لنکا کے درمیان کھیلا جائے گا ۔
آخر کیا وجہ ہے کہ سری لنکا کی ٹیم ایشیاء کپ کے فائنل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگی ہے ۔
سری لنکن ٹیم کی مضبوطی کیا ہے ؟
شاید کسی وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ پاکستان کے ساتھ فائنل میں سری لنکا ہوگی
کیونکہ سری لنکا کو بھارت اور افغانستان کے سامنے کمزور ٹیم تصور کیا جارہا تھا ۔
اپنے پہلے ہی میچ میں افغانستان کے ہاتھوں ۸ وکٹوں کی شرمناک ہار کے بعد یہ سمجھ جارہا تھا کہ سری لنکا پہلے ہی روانڈ سے باہر ہوجائے گا ۔
مگر سری لنکن ٹیم نے کرکٹ کی تاریخ کا سب سے شاندار کم بیک کیا اور ایشیاء کی چاروں ٹیموں کو یکے بعد دیگرے ہرا کر ایشیاء کپ کے فائنل میں جگہ بنالی ۔
سری لنکا نے پہلے بنگلہ دیش ، پھر افغانستان ، اس کے بعد ٹورنامنٹ کی فیورٹ بھارت کو ہرا کر ایونٹ سے باہر کیا ۔
اور اپنے آخری سپر ۴ کے لیگ میچ میں پاکستان کو بھی چت کیا ۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ سری لنکا نے یہ چاروں مقابلوں میں ہدف کا تعاقب بڑی عمدگی سے کیا ۔
اب فائنل میں پاکستان اور سری لنکا کا آمنا سامنا ہونے کو ہے ۔
پاکستان کے لیے اس وقت سب سے بڑی مشکل سری لنکا کا جذبہ ہے جس کو مات دینے کے لیے پاکستان کو ایڑی چوٹی کا زور لگانا ہوگا ۔
حالیہ ایشیا کپ میں اگر سری لنکا کی اٹھان کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو آسٹریلیا کے خلاف شاناکا کی وہ اننگز اب اس ڈریسنگ روم کے لاشعور کا حصہ بنتی نظر آتی ہے۔ جیسا مصمم عزم اور بے نیازی کی حد تک بے خوفی اس روز شاناکا کی بلے بازی میں نظر آئی تھی، کچھ ویسا ہی اعتماد اب نسانکا اور راجا پکسا کی بلے بازی میں بھی جھلکتا ہے۔ اور کوسال مینڈس تو اوپنر بننے کے بعد واقعی خطرناک ہو گئے ہیں۔
سری لنکا کی سپن بولنگ تو پچھلی تین دہائیوں سے نام کماتی آ رہی ہے مگر حالیہ برسوں میں اس ٹیم کا اصل المیہ اس کی بیٹنگ رہا ہے۔ وہ بیٹنگ لائن جو کبھی رانا ٹنگا، ڈی سلوا، اتاپتو اور جے سوریا جیسوں کی وجہ سے جانی جاتی تھی، سنگاکارا اور جے وردھنے کے جانے کے بعد کئی سال سے اپنی اصل شناخت کی کھوج میں گُم تھی۔
شاناکا کی ٹیم کی خاص بات یہ ہے کہ اس ٹیم میں سپن ڈیپارٹمنٹ تو اپنا بوجھ احسن طریقے سے اٹھا ہی رہا تھا، اب بلے بازی میں بھی اسی بے خطر سری لنکا جھلک
سی نظر آنے لگی ہے جس کے سرخیل کبھی اروندا ڈی سلوا، سنتھ جے سوریا اور کبھی تلکارتنے دلشان جیسے کھلاڑی ہوا کرتے تھے۔
ایشیا کپ کے پہلے میچ میں جس طرح سری لنکن بلے باز یکسر افغان بولرز کے رحم و کرم پہ دکھائی دیے، اس نے شاید سری لنکن بلے بازوں کو خوف کے حصار سے دھکیل کر باہر نکال چھوڑا اور پھر بنگلہ دیش کے خلاف ناک آؤٹ میچ میں سبھی بلے باز کپتان شاناکا کی سی اپروچ سے بیٹنگ کرتے نظر آئے۔
سری لنکن ٹیم کی دلیری کی مثال اس سے بڑھ کرکیا ہوسکتی ہے کہ ان کا کوئی ایک کھلاڑی ایسا نہیں جس کے بارے میں یہ کہا جائے کہ یہ خطرناک ثابت ہوگا ۔
سری لنکا کی ٹیم اس وقت اپنے گیارہ کھلاڑیوں پر انحصار کررہی ہے ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کس طرح سری لنکا کے اس جذبے اور ہمت کو مات دیتا ہے ؟